مارکسیت اوراقبالؔ
وہ کلیمِ بے تجلی: وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
اردو کی نظمیہ شاعری کی تاریخ میں محمد اقبالؔ ایک ایسا نام ہے، جسے ہم واقعتاً نابغۂ عصر کہہ سکتے ہیں۔بیسویں صدی کے نصف اول میں دوسرا کوئی ایسا شاعر نہیں جو کسی بھی اعتبار سے ان سے لگّا کھاتا ہو۔ جس طرح غالبؔ نے اردو غزل کو وہ مقام اور بلندی عطا کی ، جس سے آگے بڑھتے ہوئے اندیشہ ہے کہ غزل کی پرواز کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ اسی طرح اقبالؔ نے اردو نظم کو وہ اونچائی اور عروج عطا کیا، جس سے آگے اردو نظم آج تک سفر نہ کرسکی۔ہر چند کہ ہیئت و موادکے تجربے بہت ہوئے لیکن فکر کی وہ بالیدگی جسے اقبال نے امروز و فردا کے تصور کے طور پر پیش کیا تھا وہ شاید کہیں گم ہو گئی۔ اقبالؔ ایک دانا، فلسفی اور جہاں دیدہ شخص ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی نظام سیاست سے بھی بخوبی واقف تھے۔ شاید اسی لیے عالمی حالات و واقعات سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنا رد عمل سب سے پہلے پیش کرنے کی کوشش کی ۔
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
اقبال ؔ کی شاعری کو ہم تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اول دور حب وطن کے جذبات کی شاعری سے معمور ہے تو دوسرا دور اشتراکی ؍مارکسی نظریات سے وابستہ شاعری کا ہے اور تیسرا دور قومی و ملی نظریات سے مملو نظموں کا ہے۔اقبالؔ کی حب الوطنی اور قومی و ملی شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن دوسرے دور یعنی ان کی شاعری میں مارکسی و اشتراکی نظریات پر نہ جانے کیوں ماہرین نے اتناکچھ نہیں لکھا جتنا کہ اول اور آخر دور کے بارے میں لکھا۔اسی لیے یہاں ہمیں ان کی شاعری کے دوسرے دور سے گفتگو کرنا مقصود ہے۔
مذکورہ سطور میں جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اقبالؔ کی شاعری کا آغاز حب وطن سے سرشار نظموں سے ہوا تھا۔ پہلے دور کی شاعری میں انھوں نے ’’ہمالہ‘‘، ’’ایک گائے اور بکری ‘‘، ’’ بچے کی دعا‘‘، ’’ماں کا خواب‘‘، ’’ پرندے کی فریاد‘‘ اور ’’ ترانۂ ہندی‘‘ جیسی نظمیں تخلیق کیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ عالمی منظر نامے پر رونما ہونے والے واقعات بالخصوص پہلی عالمی جنگ اور ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب پر بھی ان کی نگاہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ روسی انقلاب کا اثر اردو شعرا میں سب سے پہلے علامہ اقبالؔ ہی نے قبول کیا اور اپنی شاعری میں سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کہی۔ اقبالؔ جیسے حساس، مفکر، فلسفی، دور اندیش اور قوم پرست شاعر کے لیے یہ واقعات معمولی اہمیت کے حامل نہیں تھے۔ عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کا ان پر گہرا اثر ہوا اور وہ مارکسی خیالات کے حامی ہی نہیں بلکہ اپنی نظموں میں کامریڈ نظر آنے لگے، جس کے نتیجے میں ان کی کئی شاہ کار نظمیں تخلیق ہوئیں۔ مثال کے لیے ’’ساقی نامہ‘‘ ، ’’سرمایہ و محنت‘‘، ’’سلطنت‘‘، ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ ، ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘، ’’الارض للّٰلہ‘‘ اور ’’فرمانِ خدا( فرشتوں سے)‘‘ کا نام خصوصی طور سے لیا جاسکتا ہے۔ اقبالؔ نے اس کرۂ ارض پر ہونے والے سب سے بڑے انقلاب سے گہر ااثر قبول کرتے ہوئے اپنے بالغ نظر مفکر ہونے کا ثبوت پیش کیا اور کہا:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو! کاخِ امرا کے درودیوار ہلا دو!
گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
اقتباس از فرمانِ خدا( فرشتوں سے)
مذکورہ سطور اس بات کی گواہ ہیں کہ عالمی منظر نامے کی نبض پر اقبال کی کتنی گہری نظر تھی؟ یہ وہی دور ہے جب پوری دنیا میں مارکسی نظریات بہت تیزی سے پھیل رہے تھے۔ پوری دنیا کے مزدوروں، کسانوں اور عوام الناس نے ایک نیا فلسفۂ حیات پا لیا تھا۔ اقبالؔ جیسا بالغ نظر شاعر بھلا ان عالمی واقعات سے بے خبر کیسے رہ سکتا تھا۔
زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا تماشہ دکھا کر مداری گیا
خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر
(اقتباس از ساقی نامہ)
روسی انقلاب نے پوری دنیا کے مفکرین کو سوچنے پر مجبور کر دیاتھا۔ یہاں سے مزدوروں، مفلسوں اور ناداروں کے ایک ہونے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحد ہو جانے کا جو پیغام پوری دنیا کو ملا وہ عالمی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اسی فکر اور جذبے سے متاثر ہو کر اقبال ؔ نے اردو شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ،جسے عاجز مارکسی فکر یا رجحان کہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیوں کہ بغیر مارکسزم سے متاثر ہوئے کوئی شاعر یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ:
وہ کلیمِ بے تجلی، وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب
ابلیس کی مجلس شوریٰ
مذکورہ شعر سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبالؔ مارکس کے فلسفے سے کس قدر متاثر تھے؟ کہ انھوں نے ’’داس کیپیٹل ‘‘ کے مصنف کارل مارکس کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہر چند کہ وہ (مارکس) پیغمبر نہیں ہے پھر بھی اسے صاحبِ کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کسی شخص پر کسی نظریے کا اس سے بڑھ کر اور کیا اـثر ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں خواجہ مسعود لکھتے ہیں کہ:
"In Javednama Iqbal generously praises Marx, giving him the highest status that a person could aspire to, short of prophet-hood. "He is not a prophet but he holds a book under his arm," says Iqbal about the author of Das Capital, which Iqbal calls the "bible of Socialism."" 1
ان اشعار کو پڑھ کر کوئی بھی اہلِ نظر یہ کہہ سکتا ہے کہ علامہ اقبالؔ اشتراکیت کے حامی وحمایتی تھے ۔ ان کی شاعری اگر ایک طرف فلسفے کی بلندیوں کو چھو رہی تھی تو دوسری طرف نوجوانوں کے لیے ان کی یہ نظمیں جہد وعمل کا پیغام دے رہی تھیں۔ وہ بھی اس عہد کے عالمی منظر نامے کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے اور اپنے دل کی آگ و سوزش کو لفظوں میں ڈھال کر سرمایہ پرستی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی قلعی سے واقف کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ کہتے ہیں:
رعنائیِ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت! پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
تو قادر و عادل ہے، مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات
اور آخر میں جب ان کی فکر کی کوئی انتہا باقی نہیں رہتی تو کہتے ہیں:
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!
اقبالؔ کی ایسی نظمیں جن پر اشتراکیت کا اثر صاف نظر آتا ہے ،وہ روسی انقلاب کے بعد ہی ان کے یہاں تخلیق ہوئی ہیں۔ اس کے بعد اقبالؔ سے فیض حاصل کرتے ہوئے دوسرے بہت سے شعرا نے مارکسی نظریات سے مملو تخلیقات پیش کیں۔ اس لیے اردو میں اشتراکیت پر مبنی خیالات کے اظہار کا سپہ سالاراقبال ہی کو کہا جا سکتا ہے۔
اقبالؔ آزادی اور غلامی کی نعمت و لعنت کو اپنے مخصوص انداز میں جوانوں کے پیش نظر کرتے ہوئے جوانوں کو عشق کا درس دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عقل پر عشق کو ترجیح ہے۔ اقبال کی پوری شاعری میں عشق کو اولیت حاصل ہے۔ کیوں کہ دنیا کے کارخانے میں جو گرمی و حرکت ہے، وہ اسی عشق کے زور سے ہے لیکن جوانوں کی تن آسانی دیکھ کر فرماتے ہیں :
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
بندے کا یہ خیال ہے کہ اس کرۂ ارض پر اگر کچھ کر دکھانا ہے تو وہ عشق ہی سے ممکن ہے ۔اس لیے کہ عقل کسی کام کو کرنے سے قبل پچاس مرتبہ اس کے نفع و نقصان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب کہ عشق پہلے کر گزرنے اور پھر اس کے نتائج دیکھنے کا قائل ہوتا ہے۔ساحل پر کھڑا انسان کبھی بھی پار نہیں اتر سکتا کیوں کہ اس کی نگاہ دریا کے جزر و مد پر ہوتی ہے لیکن ’’بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق‘‘ کے مصداق پار وہ ہی اترے گا ،جس نے کہ حوصلہ کر کے دریا میں چھلانگ لگا دی ۔ اقبال اس طرح کے جوش اور ولولے کے قائل ہیں اور اسی طرح کا جذبہ نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ’’خضر راہ‘‘ میں اپنے دل کی آگ کو لفظوں میں کچھ اس طرح انڈیلتے ہیں:
زندگی کا راز کیا ہے؟ سلطنت کیا چیز ہے؟ اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش
ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک نوجواں اقوامِ نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش
مذکورہ اشعار میں انھوں نے جس طرح کے سوالات اٹھائے ہیں، انھیں دیکھ کر کوئی بھی، جس نے کہ تاریخ کا مطالعہ کیا ہے فوراً کہہ اٹھے گا کہ شاعر پر مارکسزم کا اثر غالب ہے۔ سوالات جو انھوں نے قائم کیے ان کے جوابات بھی خود ہی فراہم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بندۂ مزدور کوجاکر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائنات
اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایہ دارِ حیلہ گر شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
(اقتباس از سرمایہ و محنت)
مذکورہ سوالات اور ان کے جوابات یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ اقبالؔ پر کس قدر اشتراکیت کا اثر تھا؟ اس لیے کہ بغیر مارکسی نظریات سے متاثر ہوئے اس طرح کے خیالات کا ورود ہونا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے۔بیسویں صدی کے نصف اول میں سرمایہ و محنت، مزدور اور آقا ، یہ ایسے عنوانات تھے ، جن پر بہت بحثیں ہوئیں ۔ایسے میں اقبالؔ جیسا دانا اس سے متاثر نہ ہوتا، ایسا ممکن نہیں لگتا۔روسی انقلاب کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جوانوں کو اکسانے، آمادۂ پیکار کرنے کے لیے اقبالؔ نے عزمِ جواں اور پیہم دواں زندگی کا درس دیا۔اس کے لیے وہ نوجوانوں کو انقلاب کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں:
چشمِ فرانسیسی بھی دیکھ چکی انقلاب جس سے دگر گوں ہوا مغربیوں کا جہاں
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے لانہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب
(اقتباس از مسجد قرطبہ)
اتنا ہی نہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ انگریزوں اور ان کی شعبدہ بازیوں کو بالکل روز روشن کی طرح قوم کے سامنے پیش کردیا جائے تاکہ عوام اس حکوت کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے۔ اس لیے طرح طرح سے انھوں نے اپنے خیالات کو پیش کرنے کی کوشش کی:
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت! پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری وعریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنّیت کے فتوحات؟
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سرِ شام یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
تو قادر و عادل ہے، مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!
(اقتباس از لینن: خدا کے حضور میں)
یہ ایک انسانی جبلت ہے کہ جب انسان اپنے حال سے مطمئن نہیں ہوتا ہے تو وہ اپنے معبود سے شکایت کرتا ہے ۔ جیسا کہ مذکورہ اشعار سے واضح ہے کہ شاعر آخر میں اپنے رب سے رجوع ہو رہا ہے کہ تو قادر بھی ہے اور عادل بھی ہے مگر تیرے کارخانے میں بندۂ مزدور کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ اس طرح اقبالؔ نے عالمی اور ملکی تمام حالات کا جائزہ بڑے غائر طریقے سے اخذ کیا اور اپنی شاعری میں اپنے محسوسات پیش کیے۔ وہ پہلے اردو شاعر ہیں، جن کے یہاں اشتراکیت کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ اقبالؔ کی حیثیت اپنے عہد کے نابغۂ عصر کی سی ہے لہٰذا ان کے تصورات سے دوسرے شعرا نے اثر قبول کیا اور اردو شاعری کے دامن کو مارکسی نظریات کی حامل تخلیقات سے بھر دیا۔
مذکورہ بالا تمام مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اقبال ؔ کی شاعری میں پورا ایک دور ہے، جب انھوں نے مارکسی نظریات سے مملو نظمیں خوب کہیں۔ ان کی اسی طرح کی نظموں کو مد نظر رکھتے ہوئے راقم السطور نے انھیں اردو کا پہلا مارکسی شاعر کہنے کی جرأت کی ہے اور بس۔
حوالہ جات:
۱۔ http://profkmasud.wordpress.com/2008/02/08/marx-and-iqbal/
کتابیات
۱۔ کلیاتِ اقبال، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۱۹۹۷ء
2. Selected articles of Khwaja Masud, Marx and Iqbal http://profkmasud.wordpress.com/2008/02/08/marx-and-iqbal/
3. Iqbal on Marx by Shaheer Niazi http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/review/oct83/4.htm
4. Iqbal and Communism by Dr. Waheed Ishrat
http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/review/oct91/6.htm
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں