جمعہ، 25 اکتوبر، 2024

مرزا ہادی رسوا


لکھنؤ کے مولوی گنج  کی ہوا دار منزل  کے سامنے  سے بچپن میں گزر ہوتا تھا، ہمارے گھر  کے بزرگ بتاتے تھے کہ اس گھر کو پہچان لو، یہ ہے  مرزا ہادی رسوا کا گھر، جس پر ان کے رشتہ داروں نے قبضہ ضرور کر لیا مگر  پہچان تو اس کی رسوا ہی سے ہے۔ جیسے ہی  آپ پوچھیں گے  کہ کون رسوا  تو ہم نے بھی  بچپن میں  پوچھا:  کون ہادی  کون رسوا؟

تب بتایا گیا؛امراؤ جان ادا کو لکھنے  والے مرزا ہادی رسوا۔ ہم بچپن میں قیصر باغ کے سینٹینیل اسکول میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے، پھر ہمیں بتایا گیا کہ  یہاں ہادی رسوا  نے تعلیم حاصل کی ہے۔ پھر گولا گنج  میں  کرسچین کالج جب ہم  پڑھنے گئے تو پھر   بتایا گیا کہ مرزا ہادی رسوا نے یہاں پڑھایا ہے ۔ لامرٹس گراؤنڈ میں ہڈسن کی قبر کی طرف  ٹہلتے  ہوئے نکلے کہ پیچھے سے  نانا ابو نے کہا، مرزا ہادی  یہاں بھی پڑھے ہیں۔ ارے یہ کیسے رسوا ہیں جو میرا  پیچھا  نہیں چھوڑتے۔ چوپٹیا میں  پیدا ہوئے اور آج کے روز ہی یعنی 21 اکتوبر  ۱۹۳۱ء کو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں آخری سانس لینے  والے مرزا ہادی رسوا نے  میری زندگی کی  ہر کروٹ پر  کھڑے ہو کر کہا  کہ ہمیں پہچان لو، دیکھ لو، یاد کرلو، زندگی کیسے  بنتی اور  بکھرتی  ہے، اسے مجھ میں جھانک کر  دیکھ لو۔

رسوا لکھنؤ کی سرزمین کا ایک وہ ستارہ جسے کتنی ہی زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔ جوسائنس میں اتنی مضبوط پکڑ رکھتا تھا کہ اس دور میں لوگ اسے دوسری دنیا کا آدمی سمجھتے تھے۔ مرزا نے رڑکی سے انجینئرنگ کی، پھر جب دل نہ لگا تو کیمسٹری میں مہارت حاصل کی، طبیعت یہاں بھی  نہیں ٹھہری تو ایسٹرولوجی کی دنیا میں ستاروں کا حساب لگانے نکل پڑے۔ سائنس کا جنون ایسا  کہ  ساری  جائیداد  بیچ  دی اور اپنی خود کی تجربہ گاہ بنا ڈالی۔  جب ہاتھ تنگ ہوئے تو لکھنؤ کے کرسچین کالج میں فارسی کے  استاذ  ہو گئے۔ یہیں انھوں نے سب سے پہلے اردو شارٹ ہینڈ کا طریقہ ترتیب  دیا جس کی وجہ سے شارٹ ہینڈ  چلن میں آیا۔

شاعری خاص کر مرثیوں کی دنیا کا سورج مرزا دبیر کو استاد مان کر ان کی شاگردی میں شاعری کی طرف رخ کیا۔ بیچ سفر میں وہ فانی دنیا چھوڑ گئے تب ان کے جگر اور جانشین مرزا جعفر اوج کے نزدیک جا بیٹھے۔ ہادی ایک انسان نہیں تھے بلکہ انسانی ذات کی الجھن تھے، تڑپ تھے، کسک تھے، جنھیں کچھ تو کرنا تھا یا بہت کچھ کرنا تھا۔

مجبوریوں نے انھیں ناول کی طرف کھینچا تو ایسی ایسی کہانی لکھ دی کہ آج بھی بحث ہوتی ہے کہ اس کے کردار سچے تھے یا صرف افسانہ۔ زمانوں سے بحث ہو رہی ہے کہ امراؤ جان ہادی رسوا کی ناول کا صرف ایک کردار ہے یا واقعی وہ تھیں، یہ ہوتی ہے کسی قلم کی طاقت۔

مرزا ہادی رسوا کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھ سکتے ہیں۔ ان کے قلم پر باتیں کر سکتے ہیں۔ آج جب ان کی یوم وفات کا دن ہے تو بس اتنا ہی کہیں گے کہ انھیں یاد بھر کر لیجیے، وہ بہت بڑا آدمی تھا۔

کتنے ہی فن کا مالک، دل جس پر لگایا تو ٹوٹ کر، رشتوں میں کتنے دھوکے کھائے؟ زندگی میں بہت دھکے کھائے مگر کبھی اف نہیں کیا، آپ ان کے ہزاروں کاموں کو کھوج کر پڑھیے۔ صرف ایک کتاب ’’امراؤ جان‘‘ دنیا کے سامنے ان کا نام اونچا اور ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

آج آپ کو یاد کرنے کا دن ہے مرزا ہادی رسوا۔۔۔ آج آپ نے دنیا سے منہ موڑا اور پیچھے ایک لمبی داستان چھوڑ گئے۔


نوٹ: حفیظ قدوائی کی فیس بک پوسٹ سے لیا گیا ہے۔ ہندی سے اردوکے قالب میں ڈھالنے کا کام ناچیز نے کیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں مشینی ترجمہ: مسائل اور امکانات

  ایک گزارش: اپنے دستی گشتی فون، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ میں جہاں تک ممکن ہو سکے  ترسیلی ضرورتوں کے لیے اردو  ہی میں لکھیے کیوں کہ جیسے ج...