بدھ، 20 جولائی، 2022

دعا میں _ التجا نہیں از مبارک صدیقی

دعا میں _ التجا  نہیں

تو "عرض حال" مسترد 

"سرشت" میں وفا نہیں

تو سو "جمال" _مسترد 


ادب نہیں، تو سنگ و خشت

ہیں  تمام  _ " ڈگریاں" 

جو "حُسن خلق" ہی نہیں

تو سب کمال _ مسترد 


عبث ہیں وہ _ "ریاضتیں" 

جو "یار" _ نہ منا سکیں 

وہ  ڈھول,  تھاپ,  بانسری

وہ ہر "دھمال" _مسترد


کتاب عشق میں یہی

لکھا  ہوا  تھا _" جا بجا " 

" بجز " _ خیال  یار  _کے

ہر   اک خیال _مسترد 


کہو، سنو، ملو، _ مگر

بڑی ہی" احتیا ط" سے 

مٹھاس بھی تو" زہر" ہے

جو  " اعتدال" _مسترد


وہ شخص  آفتاب  ہے

میں اک چراغ _" کج ادا" 

سو اس حسین کی بزم میں

میری" مجال"_  مسترد


تو کیا کوئی" گلاب" ہے؟ 

حَسین  میرے  یار _سا ؟

وہ" لا جواب" شخص ہے

سو یہ سوال _ مسترد


میں معترف تو ہوں _تیرا

مگر _" اے چاند " _معذرت 

کہ ذکر" حُسن یار"_ میں

تیری  " مثال "  _مسترد


حساب _عمر  دیکھ  لو 

کہ پھر _" پل صراط"  پر 

یہ" نفس" کے  اگر _ مگر

" فریب چال" _مسترد


دعا  میں _" التجا  نہیں

تو عرض  حال _ مسترد 

سرشت میں وفا _نہیں،

تو "سو جمال" _مسترد

مبارک صدیقی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

زخم ہمارے گننا

 مشق کرنے کے لئے پہلے ستارے گننا  گنتی آجائے تو پھر زخم ہمارے گننا  تم جو خبریں دیے جاتے ہو کہ سب اچھا ہے  اپنی بستی میں کبھی درد کے مارے گن...