سقراط اور زہر کا پیالہ
سقراط ایک سنگ تراش سوفرونس کس
اور ایک دائی، فائی ناریت کا بیٹا تھا، وہ جیومیٹری اور فلکیات کا ماھر مانا جاتا
تھا، اس نے ادب موسیقی اور جمناسٹکس میں باقاعدہ ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ سقراط ایک
منصف مزاج تھا وہ زبانی بحث کو تحریر پر فوقیت دیتا تھا اسی لیے اس نے اپنی
بالغ زندگی کا زیادہ عرصہ ایتھنز کی گلیوں اور بازاروں میں بحث کے متمنی کسی
بھی شخص کے ساتھ بحث بازی کرتے ہوئے گزارا، وہ نہایت جفاکش اور خود منضبط تھا، وہ
اپنی حاضر جوابی اور دلچسپ حس مزاح کے باعث مقبول تھا وہ ایک فلسفی تھا لیکن اس نے
نہ کوئی کتاب لکھی تھی اور نہ ہی کوئی باقاعدہ فلسفیانہ مکتب قائم کیا تھا لیکن
فلسفے میں اس کی حصے داری بنیادی طور پر اخلاقی نوعیت کی تھی، انصاف، محبت اور نیکی
جیسے تصورات کی معروضی تفہیم پر یقین اور حاصل کردہ خود آگہی اس کی تعلیمات کی
اساس تھی۔
وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ تمام بدی، لاعلمیت اور جہالت کا
نتیجہ ہے کیونکہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے برا نہیں بنتا- سقراط ہمیشہ حق
اور سچ کی جستجو میں لگا رہتا تھا، اس کی نظر میں حقیقی علم ہی ایک ایسی چیز تھی
جس کے ذریعے سچ کو حاصل کیا جا سکتا تھا۔ سقراط اکثر اپنے دوست و احباب سے ان
مسئلوں پر گفتگو کرتا رہتا تھا اور بحث کرتا رہتا تھا کہ ہو سکتا ہے کہیں سے حق کی
جھلک نظر آجائے، اس کی محنت ہر وقت جاری و ساری تھی، اس کے بہت سارے شاگرد بھی تھے، جن میں سب سے بڑا افلاطون تھا، افلاطون نے بہت ساری کتابیں لکھیں تھیں جو آج بھی
موجود ہیں۔ اس کی کتابوں میں سقراط کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔ جیسا کہ کہتے
ہیں کہ وقت کی حکومت ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتی جو حق اور سچ کی تلاش میں ہر
وقت مصروف عمل رہتے ہیں تو ایتھنز کی حکومت کو بھی سقراط کا یہ انداز
بالکل پسند نہیں تھا کہ وہ ہروقت حق کی تلاش میں رہے اور لوگوں سے بحث مباحثے کرے۔ اس لیے سقراط پر مقدمہ چلایا گیا اور توہینِ خدا کے الزام کے سبب موت کی سزا سنائی گئی۔
حکومت نے سقراط کو کہا کہ اگر تم وعدہ کرو کہ آئندہ لوگوں سے بحث کرنا
چھوڑ دو گے اور اپنا رویہ تبدیل کرو گے تو تم کو معاف کیا جاسکتا ہے تو سقراط نے
صاف انکار کردیا کہ میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔جو بات حق ہوگی، صحیح ہوگی اس کو
ترک نہیں کرسکتا۔ وہ بڑی بے باکی اور جرآت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نظریات پر ڈٹا رہا، جس کے بدلے اسے زہر کا پیالہ پینا پڑا (جیسا کہ اس دور میں سزائے موت دینے کا
دستور تھا) جس کو پی کر وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا، " مرتے وقت اس نے اپنے
اوپرالزام لگانے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مجھے اس شرط پر آزاد کرنا چاہتے ہیں کہ میں
حق کی تلاش اور جستجو چھوڑ دوں تو اس کے لیے آپ کی مہربانی کیوں کہ میں آپ کا
ایسا کوئی حکم ماننے والا نہیں ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ یہ کام مجھ پر رکھا گیا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں، میں
اپنی حق پرست گفتگو اور بحث بند نہیں کروں گا جو بھی مجھے ملے گا ،اس سے پوچھوں گا
کہ تمھیں اس بات پر افسوس نہیں ہے کہ تم دولت اورعزت کے پیچھے بھٹک رہے ہو۔ حق
پرستی یعنی اپنی زندگی کو روحانی بلندیوں سے مالا مال کرنے کی تمھیں کوئی فکر
نہیں؟" سقراط نے یہ بھی کہا کہ مجھے پتہ نہیں کہ موت کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ
وہ اچھی ہو، میں اس سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے یقین ہے کہ اپنے فرض سے غافل ہونا ضرور
خراب ہے، اس لیے جس چیز میں اچھائی ہے، اس کو برائی پر ترجیح دے رہا ہوں۔
سقراط نے اپنی زندگی میں علم اورادب کی بہت خدمت کی اور حق پرستی کو ہمیشہ
اوپر رکھا اور اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ کہ اس نے حق کی پاس داری کے لیے اپنے آپ
کو موت کے حوالے کرتے ہوئے زہر ہام لاک کا پیالہ پی لیا۔
درج بالا مضمون درج ذیل ویب گاہ سے منقول ہے۔
Great Philosopher-Socrates and the cup of poison (allrung.com)