وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
...
مضطرؔ خیرآبادی کی برسی 20/مارچ1927
نام سید محمد افتخار حسین، مضطر تخلص۔ ’اعتبار الملک‘ ، ’اقتدار جنگ بہادر‘ خطاب۔1865ء میں خیرآباد(یوپی) بھارت میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب احمد حسن رسوا اور والدہ محترمہ بی بی حرمن خیرآبادی۔ آپ کے دادا فضلِ حق خیرآبادی، غدر کے دور میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہد آزادی تھے۔ مضطرؔ نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار شہر خیرآباد، ٹونک، گوالیار، اندور، بھوپال اور رام پور میں گزارے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام اندور میں گزارے۔ شہزاد رضوی آپ کے پوتے ہیں۔مولانا فضل حق خیرآبادی کے نواسے اور شمس العلماء عبدالحق خیرآبادی کے بھانجے، جان نثار اختر کے والد' معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا تھے۔ محمد حسین ، بسمل(بڑے بھائی) اور امیر مینائی سے تلمذ حاصل تھا۔ مضطر ریاست ٹونک کے درباری شاعر تھے۔
دس برس کی عمر میں شعر موزوں کرنے لگے تھے۔
غزلوں کے علاوہ ان کی کئی نعتیہ مسدسوں نے شہرت پائی ہے۔ان کی کئی تصانیف ہیں جن کو ادبی دنیا میں کافی سراہا گیا۔ انہوں نے کرشمئہ دلبر نامی ایک رسالہ شائع کیا تھا۔ اور ان کے تقریباً تصانیف ضائع ہو جاتا اگر جاوید اختر انکو جمع کرنے بیڑا نا اٹھاتے ۔
مضطرؔ حافظ کریم خاں سندیلوی کے مرید تھے اور حاجی وارث علی شاہ صاحب سے روحانی نسبت رکھتے تھے۔
ان کے متصوفانہ کلام کا مجموعہ "الہامات" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
ان کی بعض ہندی تحریریں بھی مشہور ہیں۔
اردو ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ مضطر خیرآبادی کو ایک معروف شاعر کی حیثیت سے جانتے تھے ، جن کا کلام ادھر اُدھر اکثر ملتا تھا اور فن کے اعتبار سے لوگ ان کو استاد مانتے تھے ، لیکن کہیں کوئی باقاعدہ مجموعہ ایسا نہ تھا کہ جس کو کلیات مضطر کہا جاسکے ۔ اب جاوید اختر نا صرف ایک شاعر ہیں بلکہ کون سا وہ شعبہ نہیں جس میں انہوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو 70 کی دھائی تک ایک
مشہور فلم اسکرپٹ رائٹر رہے، 80 کی دھائی فلموں میں گیت نگاری کی اور کئی ایوارڈ سمیٹے، پھر وہ اپنے خاندانی فن میں آگئے اور مشاعروں کو زینت بخشنے لگے ۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے انہو ں نے فرقہ پرستی (خواہ وہ ہندو فرقہ پرستی ہو یا مسلم فرقہ پرستی) کے خلاف جد و جہد شروع کی تو دیکھتے دیکھتے وہ رکن پارلیمنٹ بھی بن گئے ۔ ٹھہرے جاوید اختر ! وہ شاید کچھ چین و سکون میں آئے تو اب ان کو یہ خلش ہوئی کہ دادا مرحوم مضطر خیرآبادی کا کلام تلاش کیا جائے تو جناب اس تلاش میں بقول جاوید اختر انہوں نے دس سال صرف کردیئے ۔ کبھی آبائی گھر خیرآباد میں لکڑی کے ٹوٹے، دیمک زدہ بکسوں کو کھنگالا ، تو وہاں سے مضطر خیرآبادی کا کچھ کلام دستیاب ہوا اور پھر مضطر مرحوم بطور مجسٹریٹ جہاں جہاں اپنی نوکری پر رہے ، وہاں کا سفر کیا ، لائبریریوں کو چھانا ۔ اس سفر میں جاوید صاحب خیرآباد کے علاوہ لکھنؤ ، ٹونک ، رامپور ، اندور اور بھوپال گئے ، جہاں ذاتی لائبریروں سے کچھ مواد اکٹھا کیا ۔ الغرض اس طرح جاوید اختر نے ایک ٹیم کے ساتھ مضطر خیرآبادی کا جس قدر کلام اکٹھا کرسکتے تھے ، وہ انہوں نے کیا ۔ اب جو اس کو دیوان کی شکل دی گئی تو وہ پانچ جلدوں کا کلام بن گیا جو اردو ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک استاد شاعر کا غیر مطبوعہ کلام ہے ، جو دہلی میں شائع کردیا گیا ۔
لیکن یہ سمجھئے کہ یہ قصہ ابھی ادھورا ہے ، کیونکہ مضطر خیرآبادی کے کلام کی تلاش میں ایک ایسی غزل دستیاب ہوئی جو اردو والوں ، فلمی گانوں سے دلچسپی رکھنے والوں اور ہر کس و ناکس کی زبان پر آج بھی ہے ۔ اور وہ مشہور و معروف غزل ہے ۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں
نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے
میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
محمد رفیع صاحب کی آواز میں یہ غزل دنیا بھر میں بہادر شاہ ظفر کے نام سے منسوب ہو کر مشہور ہوگئی ۔ گو ادبی حلقوں میں نیاز فتح پوری اور آل احمد سرور جیسے نامور نقادوں نے اس غزل کے بارے میں برابر یہ کہا اور لکھا کہ یہ غزل بہادر شاہ ظفر کی نہیں ہے ، گو کہ بہادر شاہ ظفر ایک بڑے شاعر تھے ، لیکن فلمی دنیا نے اس غزل کو بہادر شاہ سے ایسا منسوب کیا کہ بس ’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں‘ بہادر شاہ کی ہو کر رہ گئی ، لیکن جاوید اختر کی مضطر خیرآبادی کے کلام کی تلاش کے دوران خود ان کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی یہ غزل ان کے اور کلام کے ساتھ دستیاب ہوئی ،جس سے یہ بھرم ختم ہوگیا کہ ’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں‘ جیسی مشہور غزل جاں نثار اختر ان کے فرزند رشید تھے۔ کا شاعر مضطر ہے، ظفر نہیں ۔ یہ اردو ادب کی بڑی بحث تھی جوآخر پایۂ تکمیل کو پہونچی اور اس طرح اب مستند ہوگیا کہ مضطر خیرآبادی نے ہی اس غزل کو رقم کیا تھا ۔
مضطر خیرآبادی انتقال سے پہلے کوئی بیس روز قبل اندور سے گوالیار چلے گئے۔ طبیعت بہت زیادہ خراب تھی ۔ علاج معالجے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 16رمضان المبارک 1345ھ مطابق 20 مارچ1927ء کو گوالیار میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
منتخب کلام
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
نہ دوائے درد جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں
نہ ادھر ہوں میں نہ ادھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں
مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں
نہ میں لاگ ہوں نہ لگاؤ ہوں نہ سہاگ ہوں نہ سبھاؤ ہوں
جو بگڑ گیا وہ بناؤ ہوں جو نہیں رہا وہ سنگار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
نہ میں مضطرؔ ان کا حبیب ہوں نہ میں مضطرؔ ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
_____
آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا
اس سے کچھ کام بھی نکلے یہ اگر ہے بھی تو کیا
نہ وہ پوچھے نہ دوا دے نہ وہ دیکھے نہ وہ آئے
درد دل ہے بھی تو کیا درد جگر ہے بھی تو کیا
آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی
اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا
دیر ہی کیا ہے حسینوں کی نگاہیں پھرتے
مجھ پہ دو دن کو عنایت کی نظر ہے بھی تو کیا
صبح تک کون جئے گا شب تنہائی میں
دل ناداں تجھے امید سحر ہے بھی تو کیا
میں بدستور جلوں گا یہ نہ ہوگی مضطرؔ
میری ساتھی شب غم شمع سحر ہے بھی تو کیا
_____
اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے
کسی کے درد محبت نے عمر بھر کے لیے
خدا سے مانگ لیا انتخاب کر کے مجھے
یہ ان کے حسن کو ہے صورت آفریں سے گلہ
غضب میں ڈال دیا لاجواب کر کے مجھے
وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند
نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے
مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت
کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے
میں ان کے پردۂ بے جا سے مر گیا مضطرؔ
انھوں نے مار ہی ڈالا حجاب کر کے مجھے
_____
دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا
دل جس کا لیا اس کو بہت دور نکالا
زاہد کو کسی اور کی باتیں نہیں آتیں
آیا تو وہی تذکرۂ حور نکالا
دشمن کو عیادت کے لیے یار نے بھیجا
اچھا یہ علاج دل رنجور نکالا
اے تیر ستم چل تری دعوت ہے مرے گھر
زخم دل ناشاد نے انکور نکالا
وہ تذکرۂ غیر پہ جھنجھلا کے یہ بولے
پھر آپ نے مضطرؔ وہی مذکور نکالا
بندے نے یہ بلاگ برقی قارئین اور بالخصوص طلبہ کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھ کر ترتیب دیا ہے۔ اسے مزید بہتر بنانے کے لیے آپ کے مثبت مشوروں کی ضرورت ہے۔
اتوار، 21 مارچ، 2021
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
مخفف کے اصول
https://www.facebook.com/share/p/19wymLbfjh/
-
ارسط و کے تنقیدی نظریات ارسطو قدیم یونان کا عظیم فلسفی، سائنسدان، ریاضی دان، استاد، تحقیق نگار ااور مصنف تھا۔ اس کی تحریروں کے م وض...
-
ولی کی غزل تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا تشریح و وضاحت: اس شعر کو پڑھتے ہی ہمارے ذہن ...
-
1- دو یا دو سے زیادہ لفظوں کے ایسے مجموعے کو جسے اہلِ زبان مخصوص اور غیر حقیقی معنوں میں استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں؟ A). روز مرہ B). محاورہ...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں