پیر، 30 ستمبر، 2024

گزرا ہوا زمانہ از سر سید احمد خاں

گزرا ہوا زمانہ

سرسید احمد خاں

 

برس کی اخیر رات کو ایک بڈھا اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ رات بھی ڈراؤنی اور اندھیری ہے۔ گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے۔ آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے۔ بڈھا نہایت غمگین ہے مگر اس کا غم نہ اندھیرے گھر پر ہے، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پر۔ اور نہ برس کی اخیر رات پر۔ وہ اپنے پچھلے زمانے کو یاد کرتا ہے اور جتنا زیادہ یاد آتا ہے اتنا ہی غم بڑھتا ہے۔ ہاتھوں سے ڈھکے ہوئے منہ پر آنکھوں سے آنسو بھی بہے چلے جاتے ہیں۔

پچھلا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے۔ اپنا لڑکپن اس کو یاد آتا ہے جب کہ اس کو کسی چیز کا غم اور کسی بات کی فکر دل میں نہ تھی۔ روپیے اشرفی کے بدلے ریوڑی اور مٹھائی اچھی لگتی تھی۔ سارا گھر، ماں باپ، بھائی بہن اس کو پیار کرتے تھے۔ پڑھنے کے لیے چھٹی کا وقت جلد آنے کی خوشی میں کتابیں بغل میں لے مکتب میں چلا جاتا تھا۔ مکتب کا خیال آتے ہی اس کو اپنے ہم مکتب یاد آتے تھے۔ وہ اور زیادہ غمگین ہوتا تھا اور بے اختیار چلا اٹھتا تھا، ’’ہائے وقت، ہائے وقت، ہائے گزرے ہوئے زمانے۔ افسوس کہ میں نے تجھے بہت دیر میں یاد کیا۔‘‘

پھر وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا تھا۔ اپنا سرخ سفید چہرہ، سڈول ڈیل، بھرا بھرا بدن رسیلی آنکھیں، موتی کی لڑی سے دانت، امنگ میں بھرا ہوا دل۔ جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھائے ہوئے زمانے میں ماں باپ جو نصیحت کرتے تھے اور نیکی اور خدا پرستی کی بات بتاتے تھے اور یہ کہتا تھا، ’’آہ ابھی بہت وقت ہے۔‘‘ اور بڑھاپے آنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کو یاد آتا تھا اور افسوس کرتا تھا کہ کیا اچھا ہوتا اگر جب ہی میں اس وقت کا خیال کرتا اور خدا پرستی اور نیکی سے اپنے دل کو سنوارتا اور موت کے لئے تیار رہتا۔ آہ وقت گزر گیا۔ آہ وقت گزر گیا۔ اب پچھتائے کیا ہوتا ہے۔ افسوس میں نے آپ اپنے تئیں ہمیشہ یہ کہہ کر برباد کیا کہ ’’ابھی وقت بہت ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹٹول ٹٹول کر کھڑکی تک آیا۔ کھڑکی کھولی، دیکھا کہ رات ویسی ہی ڈراؤنی ہے، اندھیری گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی کی کڑک سے دل پھٹا جاتا ہے۔ ہولناک آندھی چل رہی ہے۔ درختوں کے پتے اڑتے ہیں اور ٹہنے ٹوٹتے ہیں۔ تب وہ چلا کر بولا، ’’ہائے ہائے، میری گزری ہوئی زندگی بھی ایسی ہی ڈراؤنی ہے، جیسی یہ رات۔‘‘ یہ کہہ کر پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔

اتنے میں اس کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست، آشنا یاد آئے جن کی ہڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں۔ ماں گویا محبت سے اس کو چھاتی سے لگائے آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑی ہے یہ کہتی ہوئی کہ ہائے بیٹا وقت گزر گیا۔ باپ کا نورانی چہرہ اس کے سامنے ہے اور اس میں یہ آواز آتی ہے کہ کیوں بیٹا ہم تمہارے ہی بھلے کے لئے نہ کہتے تھے۔ بھائی بہن دانتوں میں انگلی دیے ہوئے خاموش ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جا ری ہے۔ دوست، آشنا سب غمگین کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔

ایسی حالت میں اس کو اپنی وہ باتیں یاد آتی تھیں جو اس نے نہایت بے پروائی اور بے مروتی اور کج خلقی سے اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست، آشنا کے ساتھ برتی تھیں۔ ماں کو رنجیدہ رکھنا، باپ کو ناراض کرنا، بھائی بہن سے بے مروت رہنا، دوست، آشنا کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا یاد آتا تھا۔ اور اس پر ان گلی ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔ اس کا دم چھاتی میں گھٹ جاتا تھا اور یہ کہہ کر چلا اٹھتا تھا کہ ’’ہائے وقت نکل گیا، ہائے وقت نکل گیا۔ اب کیوں کر اس کا بدل ہو۔‘‘

وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا اور ٹکراتا لڑتا کھڑکی تک پہنچا۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔

اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑ پنا یاد آیا جس میں نہ وہ جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن۔ نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا جوش۔ اس نے اپنی اس نیکی کے زمانہ کو یاد کیا، جس میں وہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا، نمازیں پڑھنی، حج کرنا، زکوٰۃ دینی، بھوکوں کو کھلانا، مسجدیں اور کنوئیں بنوانا یاد کر کے اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔ فقیروں اور درویشوں کی جن کی خدمت کی تھی، اپنے پیروں کو جن سے بیعت کی تھی، اپنی مدد کو پکارتا تھا۔ مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں۔ مسجدیں ٹوٹ کر یا تو کھنڈر ہیں اور پھر ویسے ہی جنگل ہیں۔ کنوئیں اندھے پڑے ہیں۔ نہ پیر اور نہ فقیر۔ کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ سوجھی۔ اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا،

’’ہائے وقت، ہائے وقت، میں نے تجھ کو کیوں کھودیا۔‘‘

وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا۔ اس کے پٹ کھولے تو دیکھا کہ آسمان صاف ہے۔ آندھی تھم گئی ہے۔ گھٹا کھل گئی ہے تارے نکل آئے ہیں۔ ان کی چمک سے اندھیرا بھی کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ دل بہلانے کے لیے تاروں بھری رات کو دیکھ رہا تھا کہ یکایک اس کو آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی اور اس میں ایک خوبصورت دلہن نظر آئی۔ اس نے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے دیکھتا تھا وہ قریب ہوتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ اس کے بہت پاس آ گئی۔ وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور نہایت پاک دل اور محبت کے لہجے سے اس سے پوچھا،

’’کہ تم کون ہو۔‘‘

وہ بولی کہ ’’میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں۔‘‘

اس نے پوچھا کہ’’تمھاری تسخیر کا بھی کوئی عمل ہے۔‘‘

وہ بولی، ’’ہاں ہے۔ نہایت آسان، پر بہت مشکل۔ جو کوئی خدا کے فرض اس بدوی کی طرح جس نے کہا، ’’واللہ لا ایزید ولا انقص۔‘‘ ادا کر کہ انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کرے۔ اس کو میں مسخر ہوتی ہوں۔ دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ انسان ہی ایسی چیز ہے اخیر تک رہے گا۔ پس جو بھلائی کی انسان کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے وہی نسل در نسل اخیر تک چلی آتی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اسی تک ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی موت ان سب چیزوں کو ختم کر دیتی ہے۔ مادی چیزیں بھی چند روز میں فنا ہو جاتی ہیں مگر انسان کی بھلائی اخیر تک جاری رہتی ہے۔ میں تمام انسانوں کی روح ہوں۔ جو مجھ کو تسخیر کرنا چاہے، انسان کی بھلائی میں کوشش کرے۔ کم سے کم اپنی قوم کی بھلائی میں دل و جان و مال سے ساعی ہو۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہو گئی اور بڈھا پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔‘‘

اب پھر اس نے اپنا پچھلا زمانہ یاد کیا اور دیکھا کہ اس نے اپنی پچپن برس کی عمر میں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی بھلائی کا نہیں کیا تھا۔ اس کے تمام کام ذاتی غرض پر مبنی تھے۔ نیک کام جو کئے تھے ثواب کے لالچ اور گویا خدا کو رشوت دینے کی نظر سے کئے تھے۔ خاص قومی بھلائی کی خالص نیت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔

اپنا حال سوچ کر وہ اس دل فریب دلہن کے ملنے سے مایوس ہوا۔ اپنا اخیر زمانہ دیکھ کر آئندہ کرنے کی بھی کچھ امید نہ پائی۔ تب تو نہایت مایوسی کی حالت میں بے قرار ہو کر چلا اٹھا،

’’ہائے وقت، ہائے وقت، کیا پھر تجھے میں بلا سکتا ہوں۔ ہائے میں دس ہزار دیناریں دیتا اگر وقت پھر آتا اور میں جوان ہو سکتا۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور بے ہوش ہو گیا۔

تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی باتوں کی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اس کو گلے لگا کر اس کی بلائیں لیں۔ اس کا باپ اس کو دکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن اس کے گرد آ کر کھڑے ہوئے۔ ماں نے کہا کہ بیٹا کیوں برس کے برس دن روتا ہے، کیوں تو بے قرار ہے۔ کس لیے تیری ہچکی بندھ گئی ہے۔ اٹھ منہ ہاتھ دھو، کپڑے پہن۔ نوروز کی خوشی منا، تیرے بھائی بہن تیرے منتظر کھڑے ہیں۔ تب وہ لڑکا جاگا اور سمجھا کہ میں نے خواب دیکھا اور خواب میں بڈھا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سارا خواب اپنی ماں سے کہا۔ اس نے سن کر اس کو جواب دیا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا اس پشیمان بڈھے نے کیا بلکہ ایسا کر جیسا تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔

یہ سن کر وہ لڑکا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا،

’’او یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے۔ میں کبھی اس بڈھے کی طرح نہ پچتھاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے ایسا خوبصورت اپنا چہرہ مجھ کو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔ او خدا او خدا تو میری مدد کر۔ آمین۔

پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو! اور اے میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین

 

*سوشل میڈیا سے اٹھایا ہوا۔ اگر املا کی غلطی ہو تودر گزر کریں

ہفتہ، 14 ستمبر، 2024

ساغر صدیقی کی ایک حکایت


 ساغر صدیقی کے والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ہیں، کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے۔ غصہ میں اس لڑکی کے گھر والوں نے لڑکی کی شادی پنجاب کہ ایک ضلع حافظ آباد میں کردی جو کامیاب نہ ہوئی لیکن ساغر اپنے گھر کی ۔تمام آسائش و آرام چھوڑ چھاڑ کر لاہور رہنے لگا۔

جب اس کی محبوبہ کو پتہ چلا کہ ساغر داتا دربار ہے تو وہ داتا صاحب آ گئی کافی تلاش کے بعد آ خر تاش کھیلتے ہوئے ایک نشیڑیوں کے جھڑمٹ میں ساغر مل ہی گیا۔ اس نے ساغر کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ مجھے میرے خاونذ نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور ہماری داستان محبت سن کر مجھے طلاق دے دی ہے۔ اب اگر تم چاہو تو مجھے اپنا لو۔ ساغر نے کہا:

بندہ پرور کوئی خیرات نہیں
ہم وفاؤں کا صلہ مانگتے ہیں
غربت، ڈپریشن، ٹینشن کی وجہ سے ساغر صدیقی کے آخری چند سال نشے میں گزرے اور وہ بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتے تھے۔ گلیوں میں فٹ پاتھ پر سویا کرتے تھے لیکن اس وقت بھی انھوں نے شاعری کرنا نہ چھوڑا۔
میری غربت نے میرے فن کا اڑا یا ہے مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغؔر کو خدا یاد نہیں                     ساغر صدیقی
کہتے ہیں کہ جب جنرل ایوب خان صاحب پاکستان کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ایوب خان صاحب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا جب مشاعرہ اسٹارٹ ہوا تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
جب وہ شاعر شاعری کر کے فارغ ہوا تو جنرل صاحب اس شاعر کو کہتے ہیں کہ محترم جو غزل آپ نے اسٹارٹ میں پڑھی بہت درد بھری غزل تھی۔ یقینا" کسی نے خون کے آنسوؤں سے لکھی ہو گی اور داد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پسند آئی ہے تو وہ شاعر بولے: جناب عالی اس سے بڑی آپ کے لیے خوش خبری اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس غزل کا خالق، اس کو لکھنے والا لکھاری یعنی شاعر آپ کے ملک پاکستان کا ہے۔ جب جنرل صاحب نے یہ بات سنی تو آپ دنگ رہ گئے ۔اتنا بڑا ہیرہ میرے ملک کے اندر اور مجھے پتہ ہی نہیں۔ جب آپ نے اس شاعر سے اس غزل کے لکھاری یعنی شاعر کا نام پوچھا تو اس نے کہا جناب عالی اس درد بھرے شاعر کو ساغر صدیقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب جنرل صاحب پاکستان واپس آئے اور ساغر صدیقی صاحب کا پتہ کیا تو کسی نے بتایا کہ جناب عالی وہ لاہور داتا صاحب کے قریب رہتے ہیں تو جنرل صاحب نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں پہ مشتمل وفد تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور ان کو کہا کہ ساغر صدیقی صاحب کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاؤ اور کہنا کہ جنرل ایوب خان صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
جب وہ بھیجا ہوا وفد لاہور پہنچا تو انھوں نے اپنا تعارف نہ کرواتے ہوئے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے شاعر ساغر صدیقی کی رہائش گاہ کے متعلق پوچھا تو ان کھڑے چند لوگوں نے طنزیہ لہجوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا کہ کیسی رہائش؟ کون سا شاعر؟ ارے !آپ اس چرسی اور بھنگی آدمی سے کیا توقع رکھتے ہیں اور پھر کھڑے ان چند لوگوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے پڑا ہے۔ چرسیوں اور بھنگیوں کے جھرمٹ میں۔ جب وہ جنرل ایوب خان صاحب کا بھیجا ہوا وفد ساغر صدیقی صاحب کے پاس گیا اور ان کو جنرل صاحب کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی صاحب کہنے لگے۔ جاؤ، ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی۔ اسی لیے ساغر کسی سے نہیں ملتا (جب ساغر صدیقی نے یہ بات کہی تو بہ شمول ساغر نشے میں مست وہاں موجود ہر نشئی ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لیے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا) بہرحال بےپناہ اصرار کے بعد وہ وفد واپس چلا گیا اور سارے احوال و حالات سے جنرل صاحب کو آگاہ کیا۔
کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان صاحب پھر خود ساغر صدیقی صاحب سے ملنے کے لیے لاہور آئے اور جب ان کا سامنا ساغر صدیقی صاحب سے ہوا تو ساغر صدیقی صاحب کی حالت زار دیکھ کر جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک نہ رکنے والی جھڑی لگ گئی اور پھر انھوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غم سے چور اور نشے میں مست ساغر صدیقی سے جب مصافحہ کرنا چاہا تو ساغر صدیقی صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا کہ:
جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
میری غربت نےاڑایا ہے میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں
جب نامور گلو کار مہدی حسن نے یہ غزل گائی تو ان کی آواز میں یہ غزل ہندستان بھی پہنچی اور اسے دیگر ہندوستانی گلوکاروں نے بھی گایا ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دن ساغر صدیقی سوتر منڈی (پاکستان) میں ایک پان کی دکان کے سامنے سے گزر رہے تھےتو اس وقت آل انڈیا ریڈیو کے کسی اسٹیشن سے کوئی گلوکار ،ان کی یہی غزل گا رہا تھا، ساغر صدیقی رک گئے ۔غزل کے اختتام پر اناؤنسر نے جب یہ کہا ''ابھی آپ پاک و ہند کے مشہور شاعر ساغر صدیقی کی غزل سن رہے تھے'' تو ساغر نے ہنس کر کہا ''واہ رے مولا! ان کو معلوم ہی نہیں کہ ساغر کس حال میں زندہ ہے'' اور یہ شعر کہہ کر چل دیے :
ساقیا تیرے بادہ خانے میں ۔۔۔۔ نام ساغر ہے مے کو ترسے ہیں ۔۔
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انھیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمھاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ بڑا اندھیرا ہے
فراز عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارہ
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے
مجھے یقین دلاؤ بڑا اندھیرا ہے
جسے زبان خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ بڑا اندھیرا ہے
بنام زہرہ جبینان خطۂ فردوس
کسی کرن کو جگاؤ بڑا اندھیرا ہے


*یہ تحریر سوشل میڈیا سے اجازت لے کر کاپی کی گئی ہے۔ *

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

کمپلین نہیں شکایت

        مقامی بینک کے معلومات نمبر پر فون کیا تو پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اس کے بعد عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائے گی  پھر کہا گیا اردو کے لیے ایک دبائیے، ہم نے تامل نہ کیا، فوراً ایک صاحب زادے گویا ہوئے :

This is Kamran, how can I help you ? 

ہم نے ان سے کہا ،"میاں صاحب زادے ! ہم نے تو اردو کے لیے ایک دبائیے پر عمل کیا ہے۔  اس کے  باوجود یہ انگریزی فرمانے لگے "جی بولیے ؟" 

ہم نے کہا،" بولتے تو جانور بھی ہیں، انسان تو کہتا ہے"

جواباً ارشاد ہوا: "جی کہیے،"

 ہم نے کہا: " ہم کہہ دیتے ہیں مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہیے تھا " فرمائیے! “

 اب وہ پریشان ہوگئے کہنے لگے: “ سوری، فرمائیے کیا کمپلین ہے؟“

ہم نے کہا: "ایک تو یہ کہ سوری نہیں معذرت سننا چاہیں گے۔ اس لیے کہ اردو کے لیے ایک دبایا ہے، دوسری بات یہ کہ کمپلین نہیں شکایت، اس لیے کہ اردو کے لیے ایک دبایا ہے۔"

 اب تو سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا: " سر میں سمجھ گیا آپ شکایت  بتائیں۔‘‘

 ہم نے کہا: " سر نہیں جناب! اس لیے کہ ایک نمبر کا یہی تقاضا ہے، شکایت سننے کے بعد کہا، "جی ہم نے آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے۔ اسے کنسرن ڈپارٹمنٹ کو فارورڈ کردیتے ہیں۔"

ہم نے کہا: " کیا؟ ۔۔۔!!"  تو واقعتاٌ بوکھلا گئے، ہم نے کہا," شکایت نوٹ نہیں بلکہ درج کرنی ہے اور متعلقہ شعبہ تک پہنچانی ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔

کہنے لگے," جناب میں سیٹ سے  اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کر رہا ہوں۔ آپ نے اردو کے لیے ایک نہیں ہمارا گلا دبایا ہے۔ " ہم نے کہا: “ ابھی کہاں دبایا ہے، آپ سیٹ سے کیوں اٹھے؟ آپ کو نشست سے اٹھنا چاہیے تھا، پتہ نہیں ہے آپ کو ہم نے اردو کے لیے ایک دبایا ہے ۔

کہنے لگے “ اب میں رو دوں گا!“ 

ہم نے کہا ,"ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی گفت گو اور ستھرا لہجہ بتارہا ہے کہ آپ کا تعلق اردو گفتار گھرانے سے ہے  مگر کیا افتاد پڑی  آپ پر کہ منہ ٹیڑھا کرکے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں ۔!! *کہنے لگے," میرے باپ کی توبہ....!!

مخفف کے اصول

 https://www.facebook.com/share/p/19wymLbfjh/