وہ کچھ دیر تو ضبط
کیے بیٹھی رہی، پر آخر اس سے رہا نہ گیا۔ خود پروری اسکی فطرتِ ثانی بن گئی تھی۔
غصے میں بھری ہوئی آئی اور کامتا ناتھ سے بولی، کیا آٹا تین بوری لائے، میں نے تو
پانچ بوریوں کے لیے کہا تھا، اور گھی بھی پانچ کنستر، تمھیں یاد ہے میں نے دس
کنستر کہے تھے۔ کفایت کو میں برا نہیں کہتی، لیکن جس نے یہ کنواں کھودا، اسکی آتما
پانی کو ترسے تو کتنی شرم کی بات ہے۔
کامتا ناتھ نے معذرت
نہیں کی، عذرِ گناہ نہیں کیا، نادم بھی نہیں ہوا، فوراً تقصیر کی تلافی کرنے نہیں
دوڑا۔ ایک منٹ تو باغیانہ انداز سے کھڑا رہا، پھر بولا ہم لوگوں کی صلاح تین ہی
بوریوں کی ہوئی اور تین بوریوں کے لیے پانچ کنستر گھی کافی تھا، اسی حساب سے اور
چیزیں بھی کم کردی گئیں۔
پھول متی تیز ہو کر
بولی۔ "کس کی رائے سے آٹا کم کیا گیا؟"
"ہم لوگوں کی رائے سے۔"
"تو میری رائے کوئی چیز نہیں؟"
"ہے کیوں نہیں؟ لیکن اپنا نفع نقصان تو ہم ہی
سمجھتے ہیں۔"
پھول متی ہکا بکا ہو
کر اسکا منہ تکنے لگی۔ اس جملے کا مطلب اسکی سمجھ میں نہ آیا۔ اپنا نفع نقصان۔ یہ
"اپنا" کیا بلا ہے؟ اس کا وجود کب سے ہوا؟ اسکے نفع نقصان کی ذمہ داری
اسکے سر ہے۔ دوسروں کو، خواہ وہ اسکے پیٹ کے لڑکے ہی کیوں نہ ہوں، اسکے فیصلے میں
دخل دینے کا کیا حق ہے۔ لونڈا اسطرح جواب دے رہا ہے گویا گھر اسکا ہے۔ اس نے مر مر
کر یہ گرہستی جمع کی ہے، میں تو غیر ہوں، ذرا اسکی خود سری تو دیکھو۔
اس نے تحکمانہ لہجے
میں کہا۔ "میرے نفع نقصان کے ذمہ دار تم نہیں ہو، مجھے اختیار ہے میں جو
مناسب سمجھوں وہ کروں۔ ابھی جا کر دو بورے آٹا اور پانچ کنستر گھی اور لاؤ۔ اور
آئندہ سے خبردار جو کسی نے میری بات کاٹی۔"
اس نے اپنے خیال میں
ضرورت سے زیادہ تنبیہہ کردی تھی اور وہاں کھڑے ہونے کی ضرورت نہ سمجھ کر وہ اپنے
حجرے میں چلی آئی۔ حالانکہ کامتا ناتھ ابھی وہیں کھڑا تھا۔ اور اسکے چہرے سے مترشح
ہو رہا تھا کہ اسے اس حکم کی تعمیل میں کچھ عذر ہے۔ مگر پھول متی مطمئن بیٹھی تھی۔
اتنی تنبیہہ پر بھی کسی کو اس پر نافرمانی کی جرأت ہوسکتی ہے، یہ اسکے ذہن میں نہ
آیا۔ مگر رفتہ رفتہ اس پر اب حقیقت کھلنے لگی کہ اس گھر میں اسکی وہ حیثیت نہیں
رہی جو دس بارہ روز پہلے تھی۔ رشتہ داروں کے یہاں نوید میں گھی، شکر مٹھائی وغیرہ
آرہی تھی۔ بڑی بہو ان چیزوں کو خود خاص انداز سے سنبھال سنبھال کر رکھ رہی تھی۔
تینوں چھوٹی بہوئیں بھی بھنڈارے میں گھسی تھیں۔ کوئی بھی پھول متی سے کچھ پوچھنے
نہیں آتا۔ برادری کے لوگ بھی جو کچھ پوچھتے ہیں وہ کامتا ناتھ سے کچھ یا بڑی بہو
سے۔ کامتا ناتھ کہاں کا بڑا مہتمم ہے، دن بھر بھنگ پئے پڑا رہتا ہے اور بڑی بہو
جیسی پھوہڑ عورت بھلا ان باتوں کو کیا سمجھ سکتی ہے۔ بھد ہوگی اور کیا سب کے سب
خاندان کی ناک کٹوائیں گے۔ وقت پر کوئی نہ کوئی چیز کم ہو جائے گی۔ تب ادھر ادھر
بھاگیں پھریں گے۔ ان کاموں کیلیے بڑا تجربہ اور سلیقہ چاہیے۔ کوئی چیز ضرورت سے
زیادہ بن جائے گی اور ماری پھرے گی۔ کوئی چیز اتنی کم بنے گی کہ کسی تپل پر پہنچے
گی کسی پر نہیں۔ آخر ان سبھوں کو ہو کیا گیا ہے۔ اچھا بڑی بہو سیف کیوں کھول رہی
ہے۔ وہ سیف کو میری مرضی کے بغیر کھولنے والی کون ہوتی ہے۔ کنجی اس کے پاس ہے
ضرور، لیکن جب تک میں روپے نہ نکلواؤں وہ صندوق نہیں کھول سکتی۔ آج اس طرح کھول
رہی ہے گویا سب کچھ وہی ہے، میں کچھ ہوں ہی نہیں۔ اس نے بڑی بہو کے پاس جا کر تند
لہجے میں کہا۔ "سیف کیوں کھولتی ہو بہو؟ میں نے تو کھولنےکو نہیں کہا۔"
بڑی بہو نے بے باکانہ
انداز سے کہا۔ "بازار سے سامان آیا ہے تو دام نہ دیئے جائیں۔"
"کون چیز کس بھاؤ سے آئی ہے اور کتنی آئی ہے،
مجھے کچھ معلوم نہیں۔ جب تک حساب نہ ہو جائے، روپے کیسے دیئے جائیں گے؟"
"حساب کتاب سب ہوگیا۔"
"کس نے کیا؟"
"اب میں کیا جانوں، جا کر اپنے لڑکوں سے پوچھو۔"
پھول متی پھر آکر
اپنی کوٹھڑی میں بیٹھ گئی۔ اس وقت بگڑنے کا موقع نہ تھا۔ گھر میں مہمان بھرے ہوئے
تھے۔ اگر اس وقت اس نے لڑکوں کو ڈانٹا تو لوگ تو یہی کہیں گے، پنڈت کے مرتے ہی ان
کے گھر میں پھوٹ پڑ گئی۔ خون کا گھونٹ پی پی کر رہ جاتی ہے، جب مہمان رخصت ہو
جائیں گے، تب وہ ایک ایک کی خبر لے گی۔ دیکھیے اس وقت لڑکے کیا باتیں بناتے ہیں۔
اس عرصہ میں وہ کار پردازوں کی بے قاعدگیوں اور فضول کاریوں اور غلطیوں کا مبصرانہ
نگاہوں سے مشاہدہ کر رہی تھی۔ بارہ بجے دعوت شروع ہوئی۔ ساری برادری کے لوگ
یکبارگی کھانے کیلیے بلا لئے گئے۔ پھول متی کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ صحن میں مشکل
سے ڈھائی سو آدمی بیٹھ سکتے تھے، یہ ساری برادری کیسے بیٹھ گئی۔ دو پنگتوں میں لوگ
بیٹھتے تو کیا برا تھا۔ یہی تو ہوتا کہ دو کی جگہ چار بجے ختم ہوتی، مگر یہاں تو
سب کو سونے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔
یکایک شور مچا،
ترکاریوں میں نمک نہیں۔ بڑی بہو جلدی جلدی نمک پیسنے لگی، پھول متی غصے سے ہونٹ
چبا رہی تھی۔ مگر اس موقع پر زبان نہ کھول سکتی تھی۔ بارے نمک پسا اور پتیلیوں میں
ڈالا گیا۔
گھر میں برف نہ تھی۔
آدمی بازار دوڑایا گیا۔ بازار میں اتنی رات گئے برف کہاں؟ آدمی ناکام لوٹ آیا۔
مہمانوں کو وہی نل کا گرم پانی پینا پڑا۔ پھول متی کا بس چلتا تو لڑکوں کا منہ نوچ
لیتی، ایسی بد انتظامی اسکے گھر میں کبھی نہ ہوئی تھی۔ اس پر سب کو مالک اور منتظم
بننے کی دھن ہے۔ برف جیسی ضروری چیز منگوانے سے فرصت نہ ملی۔ مہمان اپنے دل میں
کیا کہتے ہونگے۔ دعوت کرنے چلے تھے اور گھر میں برف تک نہیں۔ اچھا پھر کیوں ہلچل
مچی۔ ارے غضب، کسی کے شوربے میں ایک مری ہوئی چوہیا نکل آئی۔ یا بھگوان تمھیں آبرو
قائم رکھیو۔ چھی، اس پھوہڑ پن کی بھی کوئی حد ہے۔ سارے مہمان اٹھے جا رہے ہیں، نہ
اٹھیں تو کیا کریں۔ آنکھوں سے دیکھ کر مکھی کون نگلے گا۔ پھول متی کے دل میں ایسا
ابال اٹھ رہا تھا کہ دیوار سے سر ٹکرائے۔ مجنونانہ حالت میں بار بار سر کے بال
نوچتی تھی۔ ابھاگے دعوت کا انتظام کرنے چلے تھے۔ سارا کرا دھرا مٹی میں مل گیا۔
سینکڑوں روپے پر پانی پھر گیا، بدنامی ہوئی وہ الگ۔ اب اس سے ضبط نہ ہوسکا۔ مہمان
اٹھ چکے تھے۔ پتلوں پر کھانا جوں کا توں پڑا تھا۔ چاروں لڑکے آنگن میں نادم کھڑے
تھے۔ ایک دوسرے کو الزام دے رہا تھے۔ بڑی بہو دیورانیوں پر بگڑ رہی تھی۔ پھول متی
شعلے کی طرح ٹوٹ کر آئی اور بولی۔ "منہ میں کالک لگ گئی کہ نہیں۔ یا ابھی کچھ
کسر ہے۔ ڈوب مرو سب کے سب جا کر چلو بھر پانی۔ شہر میں کہیں منہ دکھانے کے قابل
نہیں رہے۔ ہفتوں اس دعوت کا چرچا رہے گا۔ مذاق اڑایا جائے گا۔ تم لوگوں کو کچھ شرم
و حیا تو ہے نہیں۔ تمھیں کیا، آتما تو اس کی رو رہی ہے جس نے زندگی کو گھر کی آبرو
بنانے میں تباہ کر دیا۔"
کامتا ناتھ کچھ دیر
تو کھڑا سنتا رہا، آخر جنھجلا کر بولا۔ اچھا اب رہنے دو، اماں غلطی ہوئی ہم سب
مانتے ہیں۔ بہت بڑی غلطی ہوئی، لیکن اب اس کیلیے آدمیوں کو حلال کر ڈالو گی۔ سبھی
سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ پچھتانے کے سوا آدمی اور کیا کر سکتا ہے۔ کسی کی جان تو نہیں
ماری جاتی۔ آدمی غلطیوں ہی سے سیکھتا بھی تو ہے۔
بڑی بہو نے فرمایا۔
"ہم کیا جانتے تھے کہ بی بی (نند کملا) سے اتنا ذرا سا کام نہ ہوگا۔ چوہیا
ترکاری میں بیٹھی ہوگی، انہوں نے ٹوکری کو بغیر دیکھے بھالے کڑھاؤ میں ڈال دیا۔"
کامتا ناتھ نے بیوی
کو ڈانٹا۔ "اس میں نہ کملا کا قصور ہے نہ تمھارا نہ میرا، اتفاق ہے۔ اتنے بڑے
بھوج میں ایک مٹھی ترکاری کڑھاؤ میں نہیں ڈالی جاتی۔ ٹوکرے کے ٹوکرے انڈیل دیئے
جاتے ہیں۔ اس میں کیسی جگ ہنسائی اور کیسی نک کٹائی؟ تم خواہ مخواہ جلے پر نمک
چھڑکتی ہو۔"
پھول متی۔
"شرماتے تو نہیں، الٹے اور بے حیائی کی باتیں کرنے لگے۔"
کامتا ناتھ۔
"شرماؤں کیوں، کسی کی چوری کی ہے۔ چینی میں چیونٹے اور آٹے میں گھن، یہ سب تو
نہیں دیکھے جاتے۔ ہماری نگاہ نہ پڑی۔ بس یہی بات بگڑ گئی۔ ورنہ چپکے سے چوہیا پکڑ
کر نکال دیتے کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔"
پھول متی اس کفر پر
استعجاب سے بولی۔ "کیا سب کو چوہیا کھلا کر انکا دھرم لے لیتا۔"
کامتا ناتھ ماں کی
طرف نگاہِ ملامت سے دیکھ کر بولا۔ "کیا پرانے زمانے کی باتیں کر رہی ہو، اماں
ان باتوں سے دھرم نہیں جاتا۔ یہ دھرماتما لوگ جو پتل سے اٹھ اٹھ کر گئے ہیں، ان
میں ایسا کون ہے جو بھیڑ بکری کا گوشت نہیں کھاتا۔ تالاب کے کچھوے اور گھونگے تک
تو کسی سے بچتے نہیں۔ کیا وہ ذرا سی چوہیا ان سب سے ناپاک ہے۔"
پھول متی کے پاس ایسی
کٹ حجتوں کا جواب نہ تھا، اپنا سا منہ لے کر چلی گئی۔
کامتا ناتھ نے مسند
پر ٹک کر کہا۔ "میں تو کملا کی شادی میں اپنے حصے کی ایک پائی بھی نہیں دے
سکتا، آخر میرے بھی تو بال بچے ہیں۔"
اما ناتھ۔ "تو
یہاں کس کے پاس فالتو روپے ہیں، پانچ پانچ ہزار ہی تو ایک ایک کے حصے میں آئے ہیں۔
مجھے اپنا میڈیکل ہال کھولنے کیلیے کم از کم پانچ ہزار روپے کی ضرورت ہے۔"
دیا ناتھ۔ "مجھے
بھی پریس اور اخبار کی فکر ہے۔ پانچ ہزار اپنے ہونگے تو پانچ ہزار کا کوئی ساجھی
اور مل جائے گا۔ میں تو اپنے حصے میں سے ایک کوڑی بھی نہیں دے سکتا۔"
کامتا۔ "دادا نے
پانچ ہزار جہیز ٹھہرایا تھا۔ اسکی ضرورت ہی کیا ہے کہ پنڈت مراری لال کے لڑکے سے
شادی ہو۔ لڑکی قسمت والی ہو تو غریب گھر میں بھی آرام سے ہے، بدنصیب ہے تو راجہ کے
گھر میں بھی روتی ہے، یہ تو نصیب کا کھیل ہے۔"
سیتا نے شرماتے ہوئے
کہا۔ "یہ تو مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ طے کی ہوئی سگائی توڑ دی جائے۔ ان سے
کہا جائے کہ پانچ ہزار کی جگہ تین ہزار لے لیں۔ اسطرح پانچ ہزار میں شادی ہو سکتی
ہے۔ میں اپنے حصے کے سب روپے دے دؤں گا۔"
کامتا ناتھ نے کھسیا
کر بھائیوں سے کہا۔ "سنتے ہو اسکی باتیں۔"
اما ۔ "جب ٹھوکر
کھائیں گے تو آنکھیں کھلیں گی۔"
کامتا ۔ "اتنا
یاد رکھو کہ ہم لوگ تمھاری تعلیم کے ذمہ دار نہیں ہیں۔"
سیتا ۔ "جی ہاں یاد
ہے۔"
اما ۔ "اور جو
کہیں تمھیں ولایت جا کر پڑھنے کیلیے وظیفہ مل جائے تو سوٹ بوٹ اور سفر خرچ کیلیے
روپیہ کہاں سے لاؤ گے۔ اس وقت کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرو گے؟"
کامتا ۔ "اور
وظیفہ تمھیں ملے گا، کہو میں آج لکھدوں۔"
اس دلیل نے سیتا ناتھ
کو بھی توڑ لیا۔ فی الواقع اگر اسے سرکاری وظیفہ مل گیا تو چار پانچ ہزار تیاریوں
کیلیے درکار ہونگے۔ کملا کیلیے وہ اتنی بڑی مہربانی ہر گز نہیں کر سکتا کہ اپنی
زندگی کی سب سے بڑی آرزو پامال کر دے۔
بولا۔ "ہاں ایسی
حالت میں تو مجھے بھی روپے کی ضرورت پڑے گی۔"
کامتا۔ "تو اسکی
ایک صورت یہی ہے کہ کملا کی شادی کم سے کم خرچ میں کر دی جائے۔ ایک ہزار سے زیادہ
ہم کسی طرح خرچ نہیں کر سکتے۔ پنڈت دین دیال کیسے رہیں گے؟ ایم۔اے بی۔اے نہ سہی،
ججانی سے انکی آمدنی پچاس روپے ماہوار سے کم نہیں۔ عمر بھی ابھی چالیس سے زیادہ نہ
ہوگی۔ پچھلے سال ہی تو بیوی مری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جہیز کے بغیر راضی ہو
جائیں گے۔"
اما۔ "جہیز کا
کوئی سوال نہیں، تیسری شادی ہے۔"
کامتا۔ "یہ نہ
کہو، وہ آج چاہیں تو دو ہزار پا سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ساتھ کچھ دب جائیں گے۔ تو یہی
صلاح ہے کہ مراری لال کو جواب دیا جائے اور دن دیال کے ساتھ سگائی طے کی جائے۔"
دیا۔ "اماں سے
بھی پوچھ لینا چاہیئے۔"
کامتا۔ "اماں سے
پوچھنا بیکار ہے، انکی تو جیسے عقل گھاس کھا گئی ہے۔ وہی پرانے وقتوں کی باتیں۔
مراری لال کے نام پر ادھار کھائے بیٹھی ہیں۔ یہ نہیں سمجھتیں کہ وہ زمانہ نہیں
رہا۔"
اما۔ "وہ مانیں
گی نہیں، اپنے زیور بیچ کر شادی کریں گی، دیکھ لیجیے گا۔"
کامتا۔ "ہاں یہ
ممکن ہے، زیوروں پر انکا پورا اختیار ہے۔ یہ انکا استری دھن ہے، وہ جو چاہیں کر
سکتی ہیں۔"
دیا ناتھ۔
"استری دھن ہے تو کیا اسے لٹا دیں گی؟ آخر وہ بھی تو دادا ہی کی کمائی ہے۔"
کامتا۔ "کسی کی
کمائی ہو، استری دھن عورت کی چیز ہے۔"
اما۔ "یہ سب
فانی گورکھ دھندے ہیں۔ استری دھن کوئی چیز نہیں۔ گہنے دس ہزار سے کم کے نہیں۔ اتنی
بڑی رقم ہم کھو دینے کیلیے تیار نہیں۔ کسی بہانے سے یہ گہنے اپنے ہاتھ میں کرنے
ہونگے۔ ابھی دین دیال کا ذکر نہ کرو ورنہ تاڑ جائیں گی۔ گہنے اپنے پاس آجائیں تو
صاف صاف کہہ دو، تب کیا کر لیں گی۔"
دیا۔ "ہاں یہ
ترکیب اچھی ہے۔"
کامتا۔ "مجھے تو
دھوکہ کی چال اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ جس چیز پر ہمارا حق ہے اس کیلیے ہم لڑ سکتے
ہیں۔ جس پر ہمارا حق نہیں اس کیلیے ہم دھوکا دھڑی نہیں کر سکتے۔"
دیا ناتھ۔ "تو
آپ لوگ الگ بیٹھے رہیں، جا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایک اخبار میں مضمون لکھا تھا۔
اس پر سرکار مقدمہ چلا رہی ہے۔ پانچ ہزار کی ضمانت دینی پڑے گی۔ آپ اپنے زیور دے
دیں تو میری جان بچ جائے گی۔ آپ لوگ بھی کچھ نمک مرچ ملا دیجیے گا۔"
کامتا۔ "نا
بھیا، میں اس کام کے قریب نہ جاؤں گا۔"
سیتا۔ "میرا بھی
استعفٰی ہے۔"
اما۔ "ان لوگوں
کو جانے دو جی، ہم اور تم مل کر رنگ جما لیں گے۔ یہ دھرماتما لوگ ہیں۔ بھیا نوکر
ہی ہیں۔ سیتا کو وظیفہ ملنے والا ہے۔ ضرورت تو ہمیں اور تمھیں ہے۔"
بڑی بہو نے فرمایا۔
"پچاس روپے کے ہی تو نوکر ہیں یا اور کچھ۔ اتنے دن مجھے آئے ہوگئے، پیتل کا
ایک چھلا بھی نہ بنوایا، توفیق ہی نہ ہوئی، آج دھرماتما بنے ہیں۔"
اما۔ "اماں کے
زیور مل جائیں گے تو انکا ہار تمھیں دے دونگا۔ بھئی خاطر جمع رکھو۔"
بڑی بہو۔ "مل
چکے، وہ گڑ نہیں جو چینٹے کھائیں۔"
دیا۔ "اچھا تو
اسی بات پر ابھی جاتا ہوں۔ زیور لیکر نہ آؤں تو منہ نہ دکھاؤں۔"
یہ کہنے کی ضرورت
نہیں کہ دیا ناتھ کی کوڑی چت پڑی۔ ماں کا مامتا بھرا دل بیٹے کی مصیبت دیکھ کر
کیوں نہ پسیجتا۔ پھول متی یہ داستان سنتے ہی باؤلی ہوگئی۔ اس پر اما ناتھ نے اور
بھی ردا جمایا۔ "اگر صبح دس بجے تک روپے داخل نہ ہوئے تو ہتھکڑیاں پڑ جائیں
گی۔ بنک سے روپے ابھی تو نہیں مل سکتے۔ مہینوں خط و کتابت ہوگی، وراثت کا فیصلہ
ہوجائے گا تب کہیں جا کر روپے ملیں گے۔" پھول متی کو یہ کب برداشت ہو سکتا
تھا کہ اسکے زیوروں کے ہوتے ہوئے اسکے بیٹے کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑ جائیں۔ سارے
زیور نکال کر دیا ناتھ کو دے دیئے۔ اسطرح اپنی ماں کی گردن پر خنجر چلا کر دونوں
ناخلف خوش خوش بھائیوں کے پاس لوٹ آئے۔
پھول متی نے کہا۔
"ماں باپ کی کمائی میں کیا بیٹی کا حصہ نہیں ہے۔ تمھیں دس ہزار کا ایک باغ
ملا، پچیس ہزار کا مکان۔ بیس ہزار نقد میں سے کیا پانچ ہزار بھی کملا کا حصہ نہیں
ہے؟"
کامتا ناتھ نے نرمی
سے کہا۔ "اماں کملا ہماری بہن ہے اور ہم اپنے مقدور بھر کوئی ایسی بات نہ
کریں گے جس سے اسے نقصان ہو۔ لیکن حصے کی جو بات کہتی ہو تو کملا کا حصہ کچھ نہیں
ہے۔ دادا جب زندہ تھے تب اور بات تھی۔ اب تو ہمیں ایک ایک پیسے کی کفایت کرنا پڑے
گی۔ جو کام ایک ہزار سے ہو جائے اس کیلیے پانچ ہزار خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟"
اما ناتھ نے تصیح کی۔
"پانچ ہزار کیوں صاحب دس ہزار کہیئے۔ دعوت ضیافت رسم و رسوم میں کیا پانچ
ہزار بھی خرچ نہ ہونگے؟"
کامتا۔ "ہاں
ٹھیک ہے، دس ہی سمجھو، دس ہزار روپے ایک شادی میں خرچ کرنے کی اب ہماری حیثیت نہیں
ہے۔"
پھول متی نے ضد پکڑ
کر کہا۔ "شادی تو مراری لال کے لڑکے سے ہی ہوگی۔ چاہے پانچ ہزار خرچ ہوں،
چاہے دس ہزار، میرے شوہر کی کمائی ہے۔ میں نے مر مر کر جوڑا ہے، اپنی مرضی سے خرچ
کرونگی۔ تم سے مانگنے جاؤں تو مت دینا۔"
کامتا ناتھ کو اب تلخ
حقیقت کے اظہار کے سوا چارہ نہ رہا۔ بولے "اماں تم خواہ مخواہ بات بڑھاتی ہو۔
جس روپے کو تم اپنا سمجھتی ہو وہ تمھارا نہیں ہے، وہ ہمارا ہے۔ ایک ایک پائی ہماری
ہے۔ تم ہماری مرضی کے بغیر اس میں سے کچھ خرچ نہیں کر سکتیں۔"
پھول متی کو جیسے
سانپ نے ڈس لیا، بولی۔ "کیا کہا، پھر تو گویا میں اپنے ہی روپے اپنی مرضی سے
خرچ نہیں کر سکتی؟"
کامتا۔ "وہ روپے
تمھارے نہیں، ہمارے ہیں۔"
پھول متی۔
"تمھارے ہونگے لیکن میرے مرنے کے بعد۔"
کامتا۔ "نہیں
دادا کے مرتے ہی سب کچھ ہمارا ہوگیا۔"
اما۔ "اماں
قانون تو جانتی نہیں، خواہ مخواہ الجھتی ہیں۔"
پھول متی کی بے نور
آنکھیں شعلے کی طرح دیک اٹھیں۔ چہرہ لال ہوگیا، بولی۔ "تمھارا قانون بھاڑ میں
جائے۔ ایسے قانون میں آگ لگے۔ میں ایسے لچر قانون کو نہیں مانتی، یہ قانون ہے کہ
گلے پر چھری پھیرنا۔ تمھارے دادا ایسے کوئی دھنا سیٹھ نہ تھے۔ میں نے پیٹ اور تن
کاٹ کر یہ روپے جمع کیے ہیں، نہیں تو آج اس گھر میں دھول اڑتی ہوتی، گھر ہی کہاں
ہوتا۔ میرے جیتے جی تم میرے روپے چھو نہیں سکتے، میں نے تم چاروں بھائیوں کی شادی
میں دس دس ہزار روپے خرچ کیے ہیں۔ تمھاری پڑھائی میں بھی پانچ پانچ ہزار سے کم خرچ
نہ ہوئے ہونگے۔ کملا بھی تو میرے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے، اسکی شادی میں بھی دس ہزار
خرچ کرونگی، جو کچھ بچے گا، تم لے لینا۔"
اما ناتھ نے جھلا کر
کہا۔ "بھائی صاحب آپ ناحق اماں کے منہ لگتے ہیں۔ چل کر مراری لال کو خط لکھ
دیجیے۔ یہ قاعدہ قانون تو جانتی نہیں، بیکار بحث کرتی ہیں۔"
پھول متی نے ضبط کر
کے کہا۔ "اچھا کیا قانون ہے۔ ذرا میں بھی سنوں۔"
اما۔ "قانون یہی
ہے کہ باپ کے مرنے بعد ساری جائیداد بیٹوں کی ہو جاتی ہے، ماں کا حق صرف گزارہ
لینے کا ہے۔"
پھول متی نے پوچھا۔
"کس نے بنایا ہے ایسا قانون؟"
اما۔ "ہمارے
رشیوں نے، مہاراج منو نے اور کس نے؟"
پھول متی۔ "گھر
میں نے بنوایا ہے۔ روپے میں نے جوڑے ہیں، باغ میں نے خریدا اور آج اس گھر میں غیر
ہوں؟ منو نے یہ قانون بنایا ہے؟ اچھی بات ہے، اپنا گھر بار لو، میری جان چھوڑو۔
اسطرح محتاج بن کر رہنا مجھے منظور نہیں۔ اس سے کہیں اچھا ہے کہ میں مر جاؤں۔ واہ
رے اندھیر، میں نے ہی درخت لگایا اور میں ہی اسکا پتا نہیں توڑ سکتی۔ میں نے گھر
بنوایا، میں ہی اس میں نہیں رہ سکتی۔ اگر یہی قانون ہے تو اس میں آگ لگ جائے۔ اگر
میں جانتی کہ میری یہ درگت ہونیوالی ہے تو ساری جائیداد اپنے نام کرا لیتی۔"
چاروں نوجوانوں پر
ماں کی تندہی کا کوئی اثر نہ ہوا۔ قانون کا فولادی درہ انکی حفاظت کر رہا تھا۔ اس
کچے لوہے کا ان پر کیا اثر ہوتا۔
شام ہوگئی تھی،
دروازے پر نیم کا درخت سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کے پتوں میں بھی حس نہ تھی۔ رخصت
ہونے والے آفتاب کی ٹھنڈی کرنیں جیسے جائے پناہ ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔ پھول متی
آہستہ سے اٹھ کر اپنی کوٹھڑی میں چلی گئی۔
جاڑوں کی صبح آہستہ
آہستہ ڈرتی ڈرتی تاریکی کے پردے سے نکلی جیسے کوئی قیدی چھپ کر جیل سے نکل آیا ہو۔
پھول متی معمول کے خلاف آج تڑکے ہی اٹھی۔ رات بھر اس کا روحانی تناسخ ہو چکا تھا۔
سارا گھر سو رہا تھا اور وہ آنگن میں جھاڑو لگا رہی تھی، رات بھر شبنم میں بھیگی
ہوئی پختہ زمین اسکے ننگے پیروں میں کانٹوں کی طرح چبھ رہی تھی۔ پنڈت زندہ تھے تب
اسے بہت سویرے نہ اٹھنے دیتے تھے۔ ٹھنڈ اسے بہت مضر تھی، مگر اب وہ دن نہیں رہے۔
جھاڑو سے فرصت پا کر اسنے آگ جلائی اور کنکریاں چننے لگی۔ رفتہ رفتہ لڑکے جاگے،
بہویں اٹھیں۔ سبھوں نے بڑھیا کو سردی سے سکڑتے ہوئے کام کرتے دیکھا، پر کسی نے یہ
نہ کہا کہ اماں کیوں ہلکان ہوتی ہو، شاید وہ بڑھیا کی اس بیکسی پر دل میں خوش ہو
رہے تھے۔
آج سے پھول متی کا
یہی وطیرہ ہوگیا کہ جو کچھ بن پڑے گھر کا کام کرنا، سارے گھر کی خدمت کرنا اور
انتظامی امور سے الگ رہنا۔ اسکے چہرے پر جو ایک خود داری کی جھلک نمایاں تھی اسکی
جگہ ایک حسرتناک بے بسی چھائی ہوئی نظر آتی تھی، جہاں بجلی جلتی تھی وہاں اب تیل
کا چراغ ٹمٹما رہا تھا، جسکے بجھانے کیلیے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا کافی تھا۔
بھائیوں نے طے شدہ
تجویز کے مطابق مراری لال کو ایک انکاری خط لکھ بھیجا اور دین دیال سے کملا کی
شادی ہوگئی۔ دین دیال کی عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ تھی اور خاندانی وجاہت میں
ہیٹے تھے لیکن دال روٹی سے خوش تھے۔ بغیر کسی قرارداد کے شادی کرلی۔ تاریخ مقرر
ہوئی، بارات آئی، شادی ہوئی، کملا رخصت ہوگئی۔ کملا کے دل پر کیا گزر رہی تھی، اسے
بھی کون جان سکتا ہے۔ لیکن چاروں بھائی بیحد خوش تھے، گویا انکے پہلو سے کانٹا نکل
گیا ہو۔ شریف خاندان کی لڑکی گھر والوں کی رضا میں راضی تھی۔ تقدیر میں آرام لکھا
ہوگا، آرام کرے گی۔ تکلیف لکھی ہوگی، تکلیف اٹھائے گی۔ گھر والوں نے جس سے شادی
کردی اس میں ہزار عیب بھی ہوں تو یہی اسکا معبود، اسکا مالک، انحراف اسکے وہم و
گمان سے باہر تھا۔
پھول متی نے کسی کام
میں دخل نہ دیا۔ کملا کو کیا دیا گیا، مہمانوں کی خاطر مدارت کی گئی، کس کے ہاں سے
نوید میں کیا آیا، اسے کسی امر سے سروکار نہ تھا۔ اس سے کچھ صلاح بھی لی گئی تو
یہی کہا کہ "بیٹا تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اچھا ہی کرتے ہو، مجھ سے کیا پوچھتے
ہو۔"
جب کملا کیلیے دروازے
پر ڈولی آگئی اور کملا ماں کے گلے لپٹ کر رونے لگی تو وہ اسے اپنی کوٹھڑی میں لے
گئی اور جو کچھ سو پچاس روپے اور دو چار زیور اسکے پاس بچ رہے تھے بیٹی کے آنچل
میں ڈالکر بولی۔ "بیٹی، میری تو دل کی دل ہی میں رہ گئی۔ نہیں تو آج کیا
تمھاری شادی اسطرح ہوتی اور تم اسطرح بدا کی جاتیں۔"
کملا نے زیور اور
روپے آنچل سے نکال کر ماں کے قدموں میں رکھ دیئے اور بولی۔ "اماں، میرے لیے
تمھاری آشیرباد لاکھوں روپے کے برابر ہے۔ تم ان چیزوں کو اپنے پاس رکھو، نہیں
معلوم ابھی تمھیں کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔" پھول متی کچھ کہنا
چاہتی تھی کہ اما ناتھ نے آ کر کہا۔ "کیا کر رہی ہو۔ کملا چل جلدی کر ساعت
ٹلی جاتی ہے۔ وہ لوگ جلدی مچا رہے ہیں، پھر تو دو چار مہینے میں آئے گی ہی، جو کچھ
لینا دینا ہو لے لینا۔" پھول متی نے دل کو سنبھال کر کہا۔ "میرے پاس اب
کیا ہے بیٹا جو میں اسے دونگی۔ جاؤ بیٹی بھگوان سہاگ امر کریں۔"
کملا رخصت ہوگئی،
پھول متی پچھاڑ کھا کر گر پڑی۔
ایک سال گزر گیا۔
پھول متی کا کمرہ گھر میں سب کمروں سے وسیع اور ہوا دار تھا۔ اسنے اسے بڑی بہو
کیلیے خالی کر دیا اور ایک چھوٹی سے کوٹھڑی میں رہنے لگی، جیسے کوئی بھکارن ہو۔
لڑکوں اور بہوؤں سے اب اسے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اب گھر کی لونڈی تھی۔ گھر کے کسی
فرد کے معاملے سے اسے دلچسپی نہ تھی۔ وہ زندہ صرف اسلیے تھی کہ اسے موت نہ آتی
تھی۔ خوشی یا رنج کا اسکے اوپر کوئی اثر نہ تھا۔ اما ناتھ کا مطب کھلا، احباب کی
دعوت ہوئی۔ دیا ناتھ نے اخبار جاری کیا پھر جلسہ ہوا۔ سیتا ناتھ کو وظیفہ ملا، وہ
ولایت پڑھنے گیا پھر جشن ہوا۔ کامتا ناتھ کے بڑے لڑکے کا ایگیوپویت ہوا، خوب دھوم
دھام ہوا، پھول متی کے چہرے پر مسرت کی خفیف سی جھلک بھی نظر نہ آئی۔ اما ناتھ
ٹائیفائڈ میں مہینہ بھر بیمار رہے۔ دیا ناتھ نے ایک مضمون لکھا اور دفعہ 144 میں
چھ مہینے کیلیے جیل چلے گئے۔ کامتا ناتھ نے ایک معاملے میں رشوت لیکر غلط رپورٹ
لکھی اور سال بھر کیلیے معطل کر دیئے گئے، پھول متی کے چہرے پر رنج کی پرچھائیں تک
نہ پڑیں۔ اسکی زندگی میں کسی قسم کی دلچسپی، کوئی آرزو، کوئی فکر نہ تھی۔ بس
چوپایوں کی طرح کام کرنا اور کھانا، یہی اسکی زندگی کے دو کام تھے۔ جانور مارنے سے
کام کرتا ہے مگر کھاتا ہے دل سے، وہ بے کہے کام کرتی تھی مگر کھاتی تھی زہر کے
نوالوں کی طرح۔ مہینوں سر میں تیل نہ پڑتا، مہینوں کپڑے نہ دھلتے، کچھ پرواہ نہیں۔
اس میں احساس ہی گویا فنا ہوگیا تھا۔
ساون کی جھڑی لگی
ہوئی تھی۔ ملیریا پھیل رہا تھا۔ آسمان پر مٹیالے بادل، زمین پر مٹیالا پانی، نم
ہوا، سینوں میں بلغم اور کف بھرتی پھرتی تھی۔ مہری اور کہارن دونوں بیمار پڑ گئے
تھے۔ پھول متی نے گھر کے سارے برتن مانجھے۔ پانی میں بھیگ کر سارا کام کیا، آگ
جلائی، پتیلیاں چڑھا دیں اور گنگا سے پانی لانے چلی۔ کامتا ناتھ روزانہ گنگا جل
پیتے تھے۔ نل کا پانی انہیں موافق نہ تھا۔
کامتا ناتھ نے
چارپائی پر بیٹھے بیٹھے کہا۔ "رہنے دو اماں، میں پانی بھر لاؤں گا۔ کہارن اور
مہری آج دونوں غائب ہیں۔"
پھول متی نے مٹیالے
آسمان کی طرف دیکھ کر کہا۔ "تم بھیگ جاؤ گے بیٹا، سردی ہو جائے گی۔"
"تم بھی رہنے دو، کہیں بیمار نہ پڑ جاؤ"
"میں بیمار نہیں پڑوں گی، مجھے بھگوان نے امر
کردیا ہے۔"
اما ناتھ بھی وہیں
بیٹھا ہوا تھا۔ اسکے مطب میں کچھ نفع نہ ہوتا تھا اسلیے بہت پریشان رہتا تھا۔
"جانے بھی دو بھیا، بہت دنوں بہوؤں پر حکومت کر چکی ہے، اسکا خمیازہ اٹھانے
دو۔"
گنگا بڑھی ہوئی تھی۔
معلوم ہوتا تھا سمندر ہے، افق پانی کے ساحل سے ملا ہوا تھا۔ کنارے کے درختوں کی
صرف پھنگیاں پانی کے اوپر نظر آتی تھیں۔ پھول متی کلسا لیے ہوئے سیڑھیوں کے نیچے
اتری، پاؤں پھسلا، سنبھل نہ سکی۔ پانی میں گر پڑی، پل بھر ہاتھ پاؤں چلائے پھر
لہریں اسے نیچے کھینچ لے گئیں۔ کنارے پر دو چار پنڈت چلائے۔ "ارے بڑھیا ڈوبی
جاتی ہے۔" دو چار آدمی دوڑے بھی، لیکن پھول متی لہروں میں سما گئی تھی، ان بل
کھاتی لہروں میں جنہیں دیکھ کر ہی انسان سہم اٹھتا ہے۔ ایک نے پوچھا۔
"یہ کون بڑھیا تھی؟"
"ارے وہی پنڈت اجودھیا ناتھ کی بیوہ ہے۔"
"ہاں اسکی تقدیر میں ٹھوکر کھانا لکھا تھا۔"
"اسکے تو کئی لڑکے بڑے بڑے ہیں اور سب کماتے
ہیں۔"
"ہاں سب ہیں بھائی، مگر تقدیر بھی تو کوئی چیز
ہے۔"